(۳)
قبل اس کے کہ ہم یوتھینزیا
کے عمل کو بروئے کار لانے کی حلت وحرمت کا فیصلہ کریں ضروری
ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والے ایک مباحثہ کی تفصیل بیان
کردیں تاکہ نفس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھاجاسکے اوراس طرح شریعت
کے احکام آشکاراہوجائیں۔ یہ وہ مباحثہ ہے جو قاضی شریعت
مولانا مجاہدالاسلام کی موجودگی میں ہوا تھا اور جس پر قاضی
صاحب نے اپنا عالمانہ تبصرہ بھی فرمایا تھا؛ مگر چوں کہ اس وقت یہ
مسئلہ نیا تھا اور اس سے لوگ کم واقف تھے کہ اس عمل کو بروئے کار لانے میں
کیانقصان اور فوائد ہوسکتے ہیں، اس لیے اس پر کوئی حکم
لگانے کے بجائے موخر کردیا اور اسے فقہ اکیڈمی کے سالانہ سیمینار
کا موضوع بحث بنانے کی کوشش کی گئی جس پر کافی عرصہ بعد
عمل کیاگیا اور پھر اکیڈمی نے متفقہ طور پر اپنا فیصلہ
صادر کیا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ مذکورہ
مباحثہ میں ۸/ممتاز علمائے ہند نے حصہ لیا تھا
اور اپنے قیمتی آرا ء وخیالات سے نوازکر علمائے عظام اور مفتیان
کرام کو دعوت ملاحظہ پیش کیاتھا کہ اس صورت میں اسلام کے موقف
کو سمجھنے میں غلطی اور تاخیر کی گئی تو بھیانک
نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ تو نیچے ان آٹھوں علمائے کرام اور قاضی
شریعت کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
”مولانا عبدالعزیز
صاحب سابق مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور فرماتے ہیں:
ایکٹیویوتھینیزیا
کی وہ صورت جس میں ڈاکٹروں کو مریضوں کی جان لینے
کے لئے کوئی مثبت عمل کرنا پڑتا ہے، مثلاً :کوئی تیز انجکشن، یادوا
استعمال کرادی جائے، جس سے مریض کی سانس بند ہوجائے، یہ
جائز نہیں ہے، یہ قتل نفس ہے جس کی قرآن واحادیث میں
ممانعت وارد ہے:
”وَلاَ
تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورئہ انعام: ۱۵۱)
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لا یحل
دم امریٴ مسلم یشہد أن لا الہ الا اللّٰہ وأنی رسول
اللّٰہ الا باحدی ثلث: النفس بالنفس، والثیب الزانی،
والمارق لدینہ، التارک للجماعة“ (متفق علیہ)
(کسی مسلمان کی جان لینا جو اللہ کی توحید
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا
ہو درست نہیں، الا یہ کہ وہ قاتل ہو، یاشادی شدہ زانی
ہو، یا دین سے نکل جانے والا اور جماعت کو چھوڑ دینے والا ہو)
اگر کسی مریض
کی سانس کسی مصنوعی آلہ کے ذریعہ سے چلائی جارہی
ہو اگر اس آلہ کو ہٹادیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں
ہے، کیونکہ یہ ترک تدبیر ہے۔
پیسیویوتھینیزیا
کی دونوں صورتوں میں یہی ترک علاج ہے، ایسے مریضوں
کا اگر علاج نہ کیا جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے،
اسلام اس کی اجازت دیتاہے۔
مولانا احمد بیمات،
دارالعلوم فلاح دارین فرماتے ہیں:
اطباء اور ڈاکٹروں کی
اصطلاح میں ایسے مریض، جن کاعلاج ممکن نہیں، ان کی
صحت کی امید نہیں، ان کے لئے ایسی دوا تجویز
کرنا، جس سے مریض جلدی سے مرجائے، ایسامثبت علاج، دوا خود مریض
استعمال کرے یا ڈاکٹر جائز نہیں، حرام ہے۔
اگر ڈاکٹر، طبیب
ایسا علاج کرے گا تو قتل نفس کا گناہ اورمریض کرے گا تو خودکشی
کا ارتکاب ہوگا، اسلئے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام
فقہاء نے لکھا ہے کہ:
”یکرہ
تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین
أحدکم الموت لضرّ نزل بہ“ (شامی۵/۲۷۰)۔
(غصہ یا تنگدستی کے باعث موت کی تمنا کرنا مکروہ ہے، اور
صحیح مسلم میں ہے کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا کسی
تکلیف کی وجہ سے ہرگز نہ کرے)
فرمان رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ کسی ضرر (پریشانی)
اور تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ تحریمی
ہے۔ ”مرقاة“ میں لکھاہے کہ: ”حیات وزندگی اللہ کا امر اور
حکم ہے، اور موت کی تمنا حکم الٰہی سے فرار ہے، حکم الٰہی
سے عدم رضا ہے، لہٰذا جائز نہیں۔“ (حاشیہ مشکوٰة ۱/۱۳۹)
مومن کی حالت
”سلب ارادہ“ اور مولی خالق جن احوال میں رکھے،اس سے راضی رہنا
ہے، لہٰذا طبیب کا فعل قتل نفس ہوگا، اور مریض کا فعل خودکشی
کا ارتکاب ہوگا، لہٰذا اس باب میں جو روایات وعید وعذاب کی
وارد ہوئی ہیں، ان کا مصداق ہوگا، أعاذنا
اللّٰہ منہ․
لیکن ڈاکٹر کی
دوایا طبیب کا علاج صحت کے ارادہ سے تھا، مگر اس کا الٹا اثر ہوا، تو
ان وعیدوں کا مستحق نہیں ہوگا، اس لئے کہ مسلم شریف میں
موجود ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”سابق
زمانہ میں ایک انسان تھا اس کو زخم نکلا، صبر نہیں کیا
اور اپنے تیر سے زخمی کرلیا تاکہ مرجائے، اوراس طرح اس کا
انتقال ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: میں نے
اس پر جنت حرام کردیا ہے“ (مسلم شریف۱/۷۲)۔
علامہ نووی نے تحریر فرمایا:
”استعجالا
للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب
الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی ۱/۷۳)
”یعنی کوئی ایسا عمل جس کا مقصدموت کو جلدی
بلانا ہو، یااس میں کوئی مصلحت نہ ہو (درست نہیں) ہاں اگر
بطریق علاج معالجہ جس میں غالب امید نفع کی ہو تو حرام نہیں
ہوگا۔“
لہٰذا طبیب
کا ایسا علاج، جس میں مریض جلد از دم توڑ دے، حرام ہے، اس لئے
کہ مریض کو حکم الٰہی سے حالت مرض میں صبر کرنا چاہئے،
حکم مولی سے راضی رہنا چاہئے،اس لئے موت تو کیا موت کی
تمنا بھی دنیاوی تکلیف کی وجہ سے حرام ہے۔
سوال مذکور دوسری
صورت (Passive Euthanasia) یعنی لاعلاج مریضوں کا علاج نہ
کرنا، ترک علاج جائز ہے، اور یہ جائز ہو، یا ناجائز، لاعلاج مریضوں
کے لئے عدم استعمال کی گنجائش ہے، ترک دوا سے مریض یا اولیاء
مریض گنہگار نہیں ہوں گے، لیکن اس باب میں ترجیح مریض
کی ہوگی، عالمگیری میں ہے:
”پس اگر کوئی شخص بیمارہوجائے یا آشوب چشم کا شکار
ہوجائے، پس علاج نہیں کرائے یہاں تک کہ مرجائے تو گنہگار نہیں
ہوگا، ایسے ہی ”ملتقط“ میں ہے، اور اگر کسی آدمی کو
دست آنے لگے یا آنکھ آجائے پس اس نے علاج نہیں کرایا، یہاں
تک کہ وہ کمزور ہوکر مرگیا تو اس پر گناہ نہیں۔“ (عالمگیری
۶/۲۳۶)۔
”شامی“ میں
ہے:
”علاج معالجہ اگرچہ
حلال دواؤں کے ذریعہ ہو، اگر چھوڑ دیا اور مرگیاتو گنہگار نہیں
ہوگا، جیسا کہ لوگوں نے اس کی تصریح کی ہے، اس لئے کہ
دواؤں سے شفا (یقینی نہیں) بلکہ ظنی ہے، جیسا
کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے“ (ردالمحتار ۵/۳۴۳)۔
”مجمع الانہر“ میں
ہے:
”بخلاف اس شخص کے جو
دوا کھانے سے باز رہا یہاں تک کہ مرگیا (وہ گنہگار نہیں ہوگا)
اس لئے کہ اس کا یقین نہیں ہے کہ اس کو شفا مل ہی جائے گی۔“
(مجمع الانہر ۲/۵۲۵)۔
اور”ملتقی
الابحر“ میں ہے:
”پس ایسا شخص
(جو دوا نہ کھائے) گنہگار نہیں ہوگا، اس لئے کہ اس کا یقین نہیں
ہے کہ یہ دوااس کو شفا دے گی، اور شاید وہ بغیر علاج ہی
تندرست ہوجائے، جیسا کہ ”اختیار“ میں ہے“ (ملتقی الابحر۲/۵۲۵)۔
فقہاء کے ان اقوال
سے معلوم ہوا کہ دواؤں سے بیماری کی شفا یقینی
نہیں ہے، ظنی یا وہمی ہے، لہٰذا ان علاج ومعالجات
کو چھوڑنا جائز ہے، شافیٴ حقیقی اللہ ہے،اگر دوا کو موٴثر
سمجھتا ہے تو کفر ہے، طبیب اورڈاکٹر کو شافی سمجھے گاتو ایمان
سے نکل جائے گا، دوا، علاج، معالجہ اسباب کے درجہ میں ہیں،
لہٰذا موٴثر حقیقی،شافی حقیقی پر
بھروسہ رکھ کر علاج چھوڑ دے تو جائز ہے، لیکن اس عدم علاج ومعالجہ کو نہ
سجھے کہ وہ اس سے جلدی مرجائے گا، جلدی موت آجائے گی، موت مقررہ
وقت پر ہی آنے والی ہے، علاج کرے یا نہیں۔
”الاشتغال
بالتداوی، لا بأس بہ اذا اعتقد أن الشافی ہو اللّٰہ تعالیٰ،
وأنہ جعل الدواء سببا، أما ایٴا أعتقد أن الشافی ہو الدواء فلا،
کذا فی السراجیة“ (عالمگیری۶/۲۳۶)
”دوا علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں، اگر اعتقاد یہ
ہو کہ شفا دینے والااللہ تعالیٰ ہے، اور اسی نے دوا کو
شفا کا ذریعہ بنایا ہے، لیکن اگر کوئی شخص دوا ہی
کو شفا دینے والا مانے تو پھر یہ صحیح نہیں ہوگا، ایساہی
سراجیہ میں ہے۔“
عالمگیری
میں ایک جزئیہ لکھاہے کہ ماہر طبیبوں کی رائے ہے کہ
مریض لاعلاج ہے، زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ہے تو
علاج کو چھوڑ دے۔
”وان قیل:
لا ینجو أصلا․ لا یتداوی
بل یثرک، کذا فی الظہیریة“ (عالمگیری۶/۲۳۹)
مولانا عبدالجلیل
صاحب قاسمی، قاضی شریعت بتیا، مغربی چمپارن لکھتے ہیں:
دوا کے استعمال کے
ذریعہ زندگی کو ختم کرنا، اگر مریض خود کرے تو خودکشی ہے
اوراگر دوسرا کرے تو قتل نفس ہے، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس غرض سے علاج نہ
کرنا کہ مریض کی زندگی جلد ختم ہو، جائز ہوگا، اس لئے کہ علاج
فرض نہیں ہے کہ جس کا نہ کرانا گناہ ہو، خاص کر ایسی حالت میں
جب کہ صحت کی امید غالب نہ ہو۔
حضرت مولانا مفتی
نظام الدین صاحب سابق مفتی
دارالعلوم دیوبند کی رائے مندرجہ ذیل ہے:
ان دونوں تدبیروں
کی غرض، مریض کویا اس کے متعلقین کو تکلیفوں سے
نجات دلانا، یا ان کی تکالیف کو کم کرنا مذکور ہے۔
․․․ روایت جمع کرنے کا اس وقت محل نہیں ہے، احادیث
سے رجوع کرکے اسکی تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے کہ مریض
کو جو تکالیف غیر اختیاریہ پہنچتی ہیں، اور وہ
اس پر صبر کرتا ہے، اوراپنے کو خدا کے سپرد کرتا ہے، تو اسکے لئے یہ تکالیف
اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں، اورآخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں،
اور اچھی زندگی نصیب ہوتی ہے، حتیٰ کہ مرنے
والا معصوم یا نابالغ بچہ ہوتا ہے تو اس کی ان تکالیف سے اس کے
والدین اورمتعلقین وتیمارداروں کو جب وہ اس پر صبر کرتے ہیں
اور کلفت برداشت کرکے تفویض الی اللہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ بھی
جھڑتے ہیں اور آخرت سنورتی ہے۔
بالکل یہی
حال بالغین وغیر معصومین کے متعلقین اور تیمارداروں
کا بھی ہوتا ہے کہ ان کی تکالیف پر صبر کرنے اور ان کی
صحت و بھلائی کی تدبیر میں مشغول رہنے والے کے لئے یہ
تکالیف کفارئہ ذنوب اورآخرت میں بلندی درجات کا ذریعہ بنتی
ہیں،اور پھر ہمیشہ ہمیشہ ابدالآباد تک راحت اور چین ملتا
ہے۔
اسلئے ان مذکورہ
دونوں تدبیروں میں سے کسی تدبیر کا حکم، یا اجازت
شرعاً ہرگز نہ ہوگی، البتہ دونوں تدبیروں کے حکم میں فرق یہ
ہوگا کہ: ۱- میں (یعنی غیرطبعی موت
دوا وغیرہ کے ذریعہ طاری کرنے میں) تو ایسا کرنے
والے پر قتل کا گناہ اور وبال پڑے گا اور بسا اوقات شرعاً دیت یا ضمان
وغیرہ بھی لازم آئے گا، اور ۲- میں یہ حکم (قتل کا گناہ)
تو نہ ہوگا، لیکن ترک تدبیراور صحت کے لئے ترک سعی، فعل مذموم
وقبیح اور منشا شرع و شارع کے خلاف ضرور ہوگا،اور اگر سستی یا
لاپرواہی سے ایسا کیاگیا تو اس پر مواخذہ بھی ضرور
ہوگا۔
حضرت مولانا برہان
الدین سنبھلی، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ رقم کرتے ہیں:
ڈاکٹروں کا مریض
کو موت تک پہنچانے کے لئے کوئی مثبت عمل کرنا، یعنی کوئی
ایسی مہلک دوا دینا یا تدبیرکرنا، جس سے عادتاً موت
واقع ہوجاتی ہو، شریعت اسلامیہ کی رو سے قطعاً حرام ہے، کیونکہ
جب تک انسان میں جان رہتی ہے، وہ نفس محترم ہے، اورکسی بھی
”نفس محترم“ کو ہلاک کرنے کا ذریعہ بننا نہ صرف یہ کہ
”وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ“ (سورہ انعام:۱۵۱)
نص
قرآنی سے حرام ہے، بلکہ ایسا کرنے والا بعض شکلوں میں خون بہا،
اور بعض میں قصاص کا مستوجب شرعاً ہوگا، رہا یہ احتمال کی یہ
مریض صحت یاب نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے اسے موت تک پہنچانا راحت
دینا ہے، یہ شرعاً بے وزن ہے، کیونکہ حد مایوسی تک
مریض کا پہنچنا اوراس کے بعد موت کا آنا زیادہ سے زیادہ تخمینی
اور ظنی بات ہے، اور اس مریض کا اس وقت موجود وزندہ ہونا یقینی
ہے، پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ بسا اوقات ایسے مریض جن کی
زندگی سے مایوسی ہوچکی تھی، اور ڈاکٹروں نے بھی
لاعلاج قرار دے دیا تھا، وہ صحت یاب ہوگئے، البتہ وہ آلہ ہٹالینا
یا دوا نہ دینا یقینی ذریعہ ہلاکت نہیں
ہے (اس لئے کہ یہ سب تدابیر ظنی ہیں) اس وجہ سے (اس طریقہ
سے اگر مریض کو موت ہوجاتی ہے) تو یہ عمل ”اہلاک“ نہیں
کہلائے گا، بلکہ اسے علاج ومعالجہ کاترک کہنا صحیح ہوگا، جو اصلاً حرام نہیں
ہے، جیساکہ کتب معتبرہ فقہیہ ”عالمگیری“ وغیرہ میں
ہے:
”الأسباب
المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس
محظورا“
(عالمگیری کتاب الکراہیة باب الثامن عشر)
(وہ سبب جس کے استعمال سے ضرر کے دور ہوجانے کا یقین نہیں
ہو بلکہ گمان ہو، جیسے فصد اور دوسری طبی تراکیب، اس طرح
کہ اسباب کو چھوڑ دینا ممنوع نہیں ہے)
اس کا جواب بھی
مذکورہ بالا جواب میںآ گیا کہ ترک علاج اصلاً حرام نہیں ہے،
البتہ نیت ”اہلاک“ سے ترک علاج (انما الاعمال بالنیات) کے قاعدہ سے
معصیت بن جائے گا، مگر حقیقی اہلاک سے کم درجہ کی معصیت۔
شامی (۵/۵۱۲) میں ہے:
”بخلاف
من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“
(بخلاف اس شخص کے جو دوا علاج سے باز رہا، یہاں تک کہ مرگیا (یعنی
وہ گنہگار نہیں ہوگا)
مولانا زبیر
احمد قاسمی،ناظم مدرسہ اشرف العلوم کنہواں لکھتے ہیں:
اسلامی اصول
وعقائد کے مطابق تمام ذی روح کی حیات وموت کاایک دن متعین
ہے، قرآن کہتا ہے: ”وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ
مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ الی حِیْنٍ“ (سورہ بقرہ: ۳۶) دوسری جگہ قرآن نے یوں تصریح
کی ہے: ”فَاذا جَآءَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأخِرُوْنَ
سَاعَةً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ“ (سورئہ اعراف: ۳۴) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس دنیا
میں ایک معینہ مدت تک رہنا ہے، اورجب اس کی موت کا وقت
آئے گا تو بلاکسی تقدیم وتاخیر کے وہ اس دنیا سے کوچ کرکے
رہے گا، پھر کوئی طاقت اسے اس دھرتی پر زندہ رہنے کا حق نہیں دے
سکتی․․․ اس کے ساتھ ہی قرآن کا حکم ہے: ”ولاَ
تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ الی التَّہْلُکَةِ“ (سورئہ بقرہ:۱۹۵)
یعنی
کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو معرض ہلاکت میں
ڈالے اور دیدئہ ودانستہ کوئی ایسا اقدام کرے جو اس کی
ہلاکت وبربادی کا سبب بن جائے، اسی طرح دوسروں کو ناحق قتل کرنا بھی
شرعاً ممنوع ہے، قرآن میں صراحت ہے: ”وَلاَ
تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورئہ انعام:۱۵۱)
دوسری
جگہ قرآن کہتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ
نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا“ (سورئہ مائدہ: ۳۲) حدیث پاک میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ”قال:
لو أن أہل السماء والأرض اشترکوا فی دم مومن لأکبتہم اللّٰہ فی
النار“
(رواہ الترمذی،مشکوة ص۲۲۰، ترجمہ: اگر آسمان وزمین کے
سارے ہی لوگ کسی ایک مومن شخص کے قتل میں شریک ہوں
تو اللہ ان سب کو جہنم میں ڈالے گا)
ساتھ ہی ساتھ
احادیث میں کھلی ہدایت موجود ہے کہ کسی کو دنیاوی
مصائب و شدائد سے تنگ آکر موت کی تمنا کرنا بھی جائز نہیں۔
”قال النبی صلی اللہ
علیہ وسلم لا یتمنین أحدکم الموت من ضرّ أصابہ“ (بخاری بہامش فتح الباری ۱/۱۰۷)
دوسری روایت
میں آتا ہے کہ: ایک زخمی شخص نے تکلیف سے تنگ آکر خودکشی
کا اقدام کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بادرنی
عبدی لنفسہ فحرمت علیہ الجنة“ (مشکوة: ۳۳۰)۔ اس کے علاوہ اسلامی عقیدہ
کے مطابق اس دنیا کی تمام مصیبتیں اور تکالیف محض
وقتی اور ظاہری ہیں، ورنہ درحقیقت انسانوں کے حق میں
یہ ساری مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں
اور نوازشوں کا ہی ایک دوسرا روپ ہیں، چنانچہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ما یصیب
المسلم من نصب ولا وصب ولاہم ولاحزن ولا اذی ولا غم حتی الشوکة یشاکہا
الا کفّر اللّٰہ بہا من خطایاہ“ (بخاری علی ہامش فتح
الباری ۱۰/۱۹۔ یعنی مومن کو کوئی
بھی غم، تکلیف، مصیبت، ایذا اور دکھ پہنچے یہاں تک
کہ کانٹا چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ ان تکلیفوں کو اس کے لئے
گناہوں کا کفارہ بنادیتے ہیں)
دوسری حدیث
میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا یتمنی
أحدکم الموت اما محسنا فلعلہ أن یزداد واما مسیئا فلعلہ أن یستعتب“ (بخاری علی ہامش فتح
الباری ۱۰/۱۱۰) ان نصوص کی روشنی میں
پہلے مسئلہ ”یوتھینیزیا“ سے متعلقہ سوالات کے جواب یہ
ہوئے:
اسلام عمداً کسی
ایسی تدبیر اور مثبت عمل کی ہرگز اجازت نہیں دیتا
جو کسی کی موت کا سبب بن جائے کسی کو ناحق مارنے کی جو بھی
صورتیں ہوسکتی ہیں وہ شرعاً انتہائی مذموم اور ناجائز ہوں
گی، ان کا مرتکب مجرم وگنہگار ہوگا۔
کسی معذور مریض
کی تمام تر تکلیفیں چونکہ خود مریض اورمعذور کے حق میں
نتیجتاً اور مآلاً رحمت خداوندی اور حقیقتاً باعث خیر ہیں،
اس لئے اسے موت کے قریب کرنے کی تدبیریں حقیقتاً
رحم وکرم نہیں، بلکہ جور وظلم ہی کہلائیں گی، اسی
طرح مجبور مریض کی تیمار داری اور خبر گیری
جو ان کے اعزہ واقرباء کا صرف اخلاقی فریضہ نہیں ہے بلکہ ”الغرم
بالغنم“ کے تحت شرعی ذمہ داری بھی ہے، اس ذمہ داری کے
نباہنے میں ان کو بھی جن مشکلات اور پریشانیوں سے سابقہ
پڑتا ہے وہ بھی ”ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولاہم ولا حزن
(الحدیث)“ کے تحت ان کے حق میں کفارئہ سیئات اور موجب اجر وثواب
ہیں، اس لئے نہ تو مریض کی ذات پرترس کھانے کے عنوان سے اورنہ
اعزہ و اقرباء کو طویل تکلیفوں سے نجات دلانے کے نام پرہی اس کی
اجازت دی جاسکتی ہے، کہ کوئی ایسا مثبت عمل اور ایجابی
تدبیر اختیار کی جائے جس کے نتیجہ میں اس کی
موت جلد از جلد آجائے، قرآن نے کھل کر کہا ہے: عَسٰی
أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰی
أَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرُّلَّکُمْ“ (سورہ بقرہ ۲۱۶)
(یعنی
بسا اوقات تم کچھ چیزوں کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ تمہارے لئے
بہتر ہوتی ہیں، اور بہت سی چیزوں کو تم پسند کرتے ہو لیکن
وہ تمہارے لئے بری ہوتی ہیں)
”ولاَ
تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ الَی التَّہْلُکَةِ“ (سورہ بقرہ: ۱۹۵)
کے
تحت نفس وجان کی حفاظت ایک امر مامور بہ ہے، اور حفاظت نفس کے جمیع
اسباب و وسائل کا اپنی وسعت کے مطابق فراہم کرنا ہر انسان پر لازم ہے، اس
لئے شرعاً یہ بھی جائز نہیں ہوسکتا کہ وسعت کے ہوتے ہوئے کوئی
ترک معالجہ کرکے موت کو دعوت دے، ہاں! ممکنہ علاج کے بعد صحت و شفاء سے بظاہر
اسباب مایوس ہوکر یا وسائل کے فقدان کے سبب مجبوراً ترک معالجہ کرنا
جائز ہوسکتا ہے، یا پھر ”انما الاعمال بالنیات“ کے تحت رضا بالقضاء کے
طور پر ترک معالجہ کی اجازت ہوسکتی ہے۔ اور بس، واللہ
اعلم۔
مولانا عبدالرزاق
صاحب، قاضی شریعت کٹیہار کی رائے قابل ملاحظہ ہے:
الجواب
وباللّٰہ التوفیق للصواب:
اس کا جواب حسب ذیل
تین مقدموں پرموقوف ہے:
پہلا مقدمہ : خودکشی
اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے۔
دوسرا مقدمہ: کسی
کو ناقابل برداشت کوئی تکلیف پہنچی اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے
اس نے خودکشی کرلی یہ فعل ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ
بلاوجہ خودکشی کرلینا حرام ہے۔
تیسرا مقدمہ: یہ
کہ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے
فعل کا ارتکاب کرنا جو منجرالی الموت ہو بحکم خودکشی کے ہے۔
پہلے مقدمہ کا ثبوت
مسلم شریف ”کتاب
الایمان باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ“ کی پہلی حدیث: عن أبی
ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی
بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ کے تحت (فتح الملہم:۱/۵۶۲)
میں
ہے: ”قولہ فحدیدتہ فی یدہ،
قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ
منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی
الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ
فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ“ عبارت سے معلوم ہوا کہ اپنے کو قتل
کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔
اسی باب کی
چھٹی حدیث: ”عن أبی ہریرة قال: شہدنا
مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حُنینًا فقال
(علیہ السلام) لرجل: ممن یدعی بالاسلام ہذا من أہل النار فلما
حضزنا القتال قاتل الرجل قتالا شدیدا فأصابتہ جراحة“ ساتویں حدیث میں
ہے: ”فجرح الرجل جرحاً شدیداً فقیل
یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! الرجل الذی
قلت لہ: أنفًا أنہ من أہل النار، فانہ قاتل الیوم قتالا شدیدًا
وقدمات، فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أی
النار، فکاد بعض المسلمین أن یرتاب فبینما ہم علی ذلک ان
قیل: أنہ لم یمت، ولکن بہ جراحاً شدیدًا، فلما کان من اللیل
لم یصبر علی الجراح فقتل نفسہ فأخبر النبی صلی
اللّٰہ علیہ وسلم: فقال: اللّٰہ أکبر أشہد أنی عبد
اللّٰہ ورسولہ․ (الحدیث)“
اس حدیث سے معلوم
ہوا کہ کسی تکلیف سے نجات پانے کی غرض سے خودکشی حرام ہے،
مذکور فی الحدیث شخص نے اپنی ناقابل برداشت تکلیف سے نجات
پانے کیلئے ہی خودکشی کی تھی۔
مسلم شریف باب
مذکور کی آٹھویں حدیث ہے: شیبان بن فرح کہتے ہیں: سمعت
الحسن یقول: ان رجلاً ممن کان قبلکم خرجت بہ قرحة فلما آذتہ انتزع سہما من
کنانتہ فنکأہا فلم یرقأ حتی مات قال ربکم عزوجل: قد حرمت علیہ
الجنة ثم مد (الحسن) یدہ الی المسجد فقال: ای واللّٰہ لقد
حدثنی بہذا الحدیث جندب عن رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم فی ہذا المسجد“
اس میں مذکور
ہے کہ کسی کے پھوڑا نکلا تھا اس کی تکلیف سے نجات پانے کے لئے
اس نے تیر کے نوک سے پھوڑے کو بہادیا، پھوڑے سے اتنا خون بہا کہ وہ
مرگیا، اس سے ظاہرہے اس نے خودکشی نہیں کی بلکہ ایسے
فعل کا ارتکاب کیا جو اس کی موت کا ذریعہ بنا، براہ راست خودکشی
نہ کرنے پر بھی خدا نے اس فعل کو خودکشی کا حکم دیا۔
دوسرے اور تیسرے
مقدمہ میں ثابت کیاگیا ہے کہ کسی کا اپنی شدید
تکلیف سے نجات پانے کی غرض سے خودکشی کرنا اور بجائے خودکشی
کے ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو اس کو موت تک پہنچادے، دونوں حرام ہیں۔
اور پہلے مقدمہ میں
ثابت کیاگیا ہے کہ خودکشی اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک
حکم ہے، لہٰذا ڈاکٹروں کا کسی ایسے مریض کو جس کے زندہ
رہنے کی مظنون توقع نہ ہو، یا اس کی زندگی ڈاکٹروں کے ظنی
علم کے مطابق محض ایک بوجھ ہو، اس کی شدید تکلیف سے نجات
دلانے کے لئے ”یوتھینیزیا“ کی دونوں قسمیں مریضوں
کو قتل کرنے کے حکم میں ہیں اور ڈاکٹر حضرات ان مریضوں کے قاتل
شمار کئے جائیں گے۔
اس طرح مسئلہ یوتھینیزیا
کا پہلا سوال حل ہوگیا کہ کسی مریض کو اس کی شدید
تکلیف سے نجات دلانے کے لئے عمداً مریض کو موت تک پہنچادینے کی
اجازت اسلام نہیں دیتا ہے۔
دوسرا سوال جس کا
تعلق ”یوتھینیزیا یا پیسیو“ سے ہے جس
کا مطلب یہ تھا کہ مریض کی جان لینے کے لئے ”یوتھینیزیا
ایکٹیو“ کی دونوں قسموں میں سے کوئی عملی تدبیر
نہیں کی جاتی ہے؛ بلکہ اسے زندہ رکھنے کے لئے جو ضروری
علاج کیا جانا چاہئے وہ نہیں کیا جاتا ہے، مثلاً کینسر، یا
طویل بیہوشی، یا دماغی چوٹ، یا مننجائٹس کا
مریض جس کے زندہ رہنے کی توقع نہ ہو، یا وہ بچے جو شدید
طور پر معذور ہوں جن کی زندگی خود ان کے لئے اوران کے والدین کے
لئے محض بوجھ ہو ایسے مریضوں کو ایک نیا قابل علاج مرض
مثلاً: نمونیہ لاحق ہوگیا لیکن ڈاکٹر اس نمونیہ کا علاج
نہ کرے تاکہ مریض آسانی سے مرجائے کیا اسلام اس مقصد کی
خاطر نمونیہ کا علاج چھوڑ دینے کی اجازت دیتاہے؟ اس کا
جواب اس بات پر موقوف ہے کہ ڈاکٹروں کی ذمہ داری اور ان کا فرض منصبی
متعین کیا جائے، ظاہر ہے کہ ڈاکٹروں کی ذمہ داری مریضوں
کو بذریعہ معالجہ صحت یاب کرنا ہے، پس جب کوئی شخص اپنا نمونیہ
والا مریض جو پہلے سے کینسر، دماغی چوٹ وغیرہ میں
مبتلا تھا، ڈاکٹروں کے پاس لے گیا تو اب ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہے
کہ وہ نمونیہ کا علاج کریں،اس کے برعکس ڈاکٹروں کا اس خیال سے
نمونیہ کا علاج نہ کرنا تاکہ مریض جلد مرجائے اور کینسر کی
شدید تکلیف سے نجات پائے، دودھاری تلوار ہے، نمونیہ کی
نسبت سے اپنے فرض اور ذمہ داری سے گریز کرنا ہے، اور کینسر کی
نسبت سے ایک ایسے (منفی) فعل کا ارتکاب کرنا ہے جو مریض
کو موت تک پہنچادینے والا ہے، اور جو پہلے اور تیسرے مقدمہ کے مطابق
مریض کو قتل کرنے کے حکم میں ہے، پس نمونیہ کا علاج نہ کرنا ”یوتھینیزیا
پیسیو“ ہے اورایکٹیو بھی، اس لئے اسلام اس علاج کے
چھوڑ دینے کی اجازت دونوں وجوہ سے نہیں دیتاہے۔
مولانا خالد سیف
اللہ رحمانی جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
تحریر فرماتے ہیں:
موت میں تعاون:
اسلام کا تصور یہ
ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے کائنات کی کسی شئی کا یہاں
تک کہ خود اپنا مالک بھی نہیں ہے، اس لئے جس طرح اس کے لئے یہ
درست نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی زندگی کے درپے ہو، اور اسے
ہلاک کردے، یا اس کے جسم کو جزوی نقصان پہنچائے، اسی طرح یہ
بات بھی روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کرلے، اور کسی شرعی
مصلحت کے بغیر اپنے کسی حصہ جسم ہی کو ضرر پہنچائے، اس کا جسم
دراصل اس کے ہاتھوں میں اللہ کی امانت ہے، جس کی حفاظت اس کا فریضہ
ہے،اورجس کا استعمال حکم خداوندی کے مطابق اس کو کرنے کی اجازت ہے،
مگراس نوعیت کا تصرف کسی طور پر جائز نہیں ہے۔
یہ طرز فکر
بجائے خود اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ایسی مہلک
دواؤں کا استعمال جائز نہ ہوگا، چنانچہ روایت میں ہے: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
”من
تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا
خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ
یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة
فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار
جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا“ (مسلم مع فتح الملہم ۱/۲۶۵)۔
اس حدیث سے
معلوم ہوتا ہے کہ چاہے قتل کے لئے کسی آلہٴ حادہ کا استعمال کیا
جائے یا ”آتشیں اسلحہ“ کا یا کسی مشروب کا، ہر ایک
خودکشی کے زمرہ میں آئے گا، اسی طرح وہ دوائیں جو جسم میں
داخل ہوکر اعضاء کو کاٹ ڈالتی ہوں ”آلہ حادہ“ میں کسی خاص عضو
کو اپنی حدت سے جلادیتی ہوں ”آتشیں اسلحہ“ میں،اور
اس طرح کی تکلیف کے بغیر زہر بن کر ہلاک کردیتی
ہوں، جیسے بعض انجکشن اور دوائیں وغیرہ ”مشروب زہر“ میں
شمار ہوں گی،اورحرام ہوں گی۔
یہاں یہ
شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حدیث میں عام حالات میں خودکشی
سے منع کیاگیا ہوگا، لیکن اگر شدت اذیت کی وجہ سے
محض ایک واقعی تکلیف سے بچنے کا ارادہ ہوتو مصلحتاً اس کی
اجازت ہوگی، مگر دوسری احادیث نے اس مسئلہ کو بھی واضح
کردیا ہے، چنانچہ حضرت جندب بن عبداللہ سے مروی ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کان فیمن
کان قبلکم رجل بہ جرح فجرع فأخذ سکیناً فحزّبہا یدہ فما رقأ الدم حتی
مات قال اللّٰہ تعالیٰ: بادرنی عبدی بنفسہ فحرمت علیہ
الجنة“
خود عہد رسالت کا
واقعہ حضرت جابر ان الفاظ میں
بیان کرتے ہیں:
”ان
الطفیل بن عمرو الدوسی لما ہاجر النبی صلی اللہ
علیہ وسلم الی المدینة ہاجر الیہ وہاجر معہ رجل من قومہ
فمرض فجزع فأخذ مشاقص لہ فقطع بہا براجمہ فشخبت یداہ حتی مات فرآہ
الطفیل بن عمرو فی منامہ وہیئتہ حسنة ورآہ مغطیا یدیہ،
فقال لہ: ما صنع بک ربک! فقال: غفرلی بہجرتی الی نبیہ
صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالی أراک مغطیا یدیک،
قال: قیل لی: لن نصلح منک ما أفسدت فقصہا الطفیل علی رسول
اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقال رسول اللّٰہ صلی
اللہ علیہ وسلم: اللہم ولیدیہ فاغفر“
یہ تصریحات
بتاتی ہیں کہ غیرمعمولی جسمانی اذیت اور کلفت
سے بچنے کے لئے بھی ایسا طرز عمل اختیار کرنا حرام ہے، اس کو
آپریشن یا علاجاً بعض اعضاء کی تراش و خراش اور جسم سے قطع و برید
پر قیاس نہیں کرنا چاہئے، اس لئے کہ کسی عضو کو علاجاً کاٹنے میں
جسم کے دوسرے حصوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنا اور جان بچانا مقصود ہوتا ہے،
اور اس اہم شرعی اورجسمانی مصلحت کے پیش نظر کمتر نقصان کو
گوارا کرلیاجاتا ہے، جب کہ یہاں مقصود ہی ہلاک کرنا ہے، چنانچہ
ایک غزوہ کے موقع سے ایک صحابی کا ہاتھ اس طرح کٹ گیا کہ
چمڑا لگا ہوا تھا،اور ہڈیاں لٹک رہی تھیں، نیز اس کی
وجہ سے مقابلہ میں دشواری پیش آرہی تھی انھوں نے
اپنا ہاتھ کھینچ کر علیحدہ کردیا،اس عمل سے اپنے آپ کو ہلاک
کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اپنے آپ کو دفاع کے قابل بنانا تھا، جس میں ان کی
جان کی حفاظت مضمر تھی، اس لئے یہ گویا جائز تھا۔ (باقی آئندہ)
$ $ $
---------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 92 ، صفرالمظفر 1429 ہجری مطابق
فروری 2008ء